Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • سماج میں اتنی سطحیت ،اللّٰہ خیرکرے!

    اسلامی سوسائٹی اور سماج کا ہمیشہ ایک الگ ہی خاصہ رہا ہے ، وہ دنیا کے دوسرے سماج کی طرح بے ہنگم ،سطحیت اورحیوانیت وبہیمیت کی طرح بے اصول وبے ترتیب نہیں ، اسلامی سوسائٹی میں توحید اور عقیدہ کی پختگی ہوتی ہے ، ایمان اور عمل تقویٰ وصالحیت کے سارے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں ، وہاں بھائی چارگی ہوتی ہے ،محبت واخوت ، تعاون علی الخیر ، غرور وپندار سے دور ، کبروتعلی ،بغض وحسد ،غیبت وچغل خوری ، وعدہ خلافی ،بدکرداری ،شیطانی مکاری ، دبنگئی اورحرام خوری وغیرہ وغیرہ سے پاک وصاف اورمنزہ مصفی معاشرہ ہی اسلامی معاشرہ ہے، مگر جیسے جیسے عہد نبوت سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ہرطرح کی خرابیاں برائیاں در آتی چلی آرہی ہیں، اور آج سماج ومعاشرہ سطحیت ورذالت پن کی اس حالت میں ہے کہ اللہ ہی حفاظت فرمائے ، عوام تو عوام علماء عبید الدنیا کا جو فتنہ سرچڑھ کر بول رہا ہے وہ الگ ہی مصیبت ہے، اسلام کے بنیادی اصول ،اساسی احکام ، ایمان باللہ وبالیوم الآخر وبالرسل، صلاۃ وصیام اور زکاۃ و حج وعمرہ تک کا علم نہیں ، اور اگر کہیں علم ہے تو عمل ندارد، قساوت قلبی اتنی کہ قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح ہورہی ہے، جنت وجہنم اور وعد وعید کی آیتیں پڑھی جارہی ہیں پھر بھی کوئی اثر نہیں ۔
    {أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوٓا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ للّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَا لَّذِينَ أُوتُوا لْكِتـٰبَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِير مِّنْهُمْ فٰـسِقُونَ}
    ’’کیا اب تک ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الہٰی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں،اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی،پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں‘‘
    [الحدید:۱۶]
    یقول تعالٰی ذکرہ {أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوٓا }
    ألم يحن للذين صدقوا اللّٰه ورسوله أن تلين قلوبهم لذكر اللّٰه، فتخضع قلوبهم له، ولما نزل من الحقّ، وهو هذا القرآن الذى نزله على رسوله۔
    [تفسیر الطبری]
    یعنی کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کی ان کے دل اللہ کے ذکر سے نرم ہوجائیںاور ان کے دل ان کے لیے جھک جائیں۔
    تفسیر ابن کثیر میں ہے:
    يَقُولُ اللّٰهُ تَعَالَي : أَمَا آنَ لِلْمُؤْمِنِينَ أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ، أَيْ: تَلِينَ عِنْدَ الذِّكْرِ وَالْمَوْعِظَةِ وَسَمَاعِ الْقُرْآنِ، فَتَفْهَمَهُ وتنقادُ لَهُ وَتَسْمَعَ لَهُ وَتُطِيعَهُ۔
    ’’ یعنی مسلمانوں کا دل دہل جانا چاہیے ،آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے جاری ہوجانا چاہیے جب نصیحت موعظت ہو رہی ہو ،اسی طرح قرآن کی تلاوت ہورہی ہو تواس وقت قرآن کو سمجھنے اور اس کے معانی و مفاہیم کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے نیز اس کے مطابق عمل بھی کرنا چاہیے۔
    محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خلیفۃ الارض بنایا ہے، خلیفۃ الارض بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کاکام سرانجام دے، وہ اپنی زندگی رب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارے ،اپنا قدوہ اور نمونہ رسول کوبنائے اور وحی الٰہی کو اس سرزمین پر نافذ العمل کرے ،بصورتِ دیگر وہ زوال وپستی و کم ظرفی کا شکار ہوگا،یہاں تک کہ وہ حیوانوں، درندوں اورجانوروں کی خصلت اختیار کر کے اپنی حدود اور ذمہ داریوں سے روگردانی کرے گا، بلکہ بسااوقات وہ جانوروں سے زیادہ پستی میں گرتا چلا جائے گا۔
    {وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوب لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُن لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ  آذَان لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآ أُولٰـئِكَ كَا لاَ نْعـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولٰئِكَ هُمُ الْغٰـفِلُونَ}
    ’’اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں،جن کے دل ایسے ہیں جن سے سمجھتے نہیں اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے دیکھتے نہیں اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے سنتے نہیں،یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں‘‘
    [الأعراف: ۱۷۹]
    آج سماج وسوسائٹی میں طوفان بپا ہے،جدھر دیکھو دیوالیہ پن ،سرپھرے لوگوں نے بقلولیت کا جھنڈاٹھا کر اُدھم مچارکھا ہے،آج ہمارا سماج کدھر جارہا ہے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا، غلط افکار، عجمی ذہنیت کی کثرت ،اسلامی اصول وضوابط کا کوئی پاس ولحاظ نہیں، وراثت خوری (ناجائز طریقے سے مثلاً ،بٹوارہ نہ کرکے، بہن کاحق مار کے،وصیت کو نہ نافذ کر کے وغیرہ ) حرام خوری، سودخوری ،غنڈہ گردی، لوٹ کھسوٹ ،ایک دوسرے کی جائداد اور پراپرٹی کودبانا عام ہے،ایک ایک بالشت کے لیے کئی کئی سالوں تک کیس ،مقدمہ اورلڑائی جھگڑا چلتے رہتا ہے ، طلاق شدہ عورت یا خلع شدہ عورت کا کوئی احترام نہیں ، سماج اور معاشرے کااتنا دباؤ کہ کوئی عورت خلع لینا چاہ رہی کسی عذرقاہر کی بنا پر تو ساری غلطیاں عورت کی، سماج میں اتنے ظلم وجور ،غریبوں کودبانا ،ان کاحق مارنا ،یتیموں کامال ہڑپنا ، ٹھگنا، غصب وغبن کرنا ،مسجد اور ٹرسٹ کاپیسہ دبالینا ، یہ سب اتنے خطرناک جرائم ہیں لیکن سماج میں ان چیزوں کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ہے، سماجی زندگی میں انسان کا کردار اتنا سطحی اور نچلے درجے کا ہوگیا ہے کہ جب کوئی بچہ یا کسی پڑوسن کا جانور اس کے کسی سامان کو تھوڑا بھی نقصان پہنچاتا ہے تو یہ اپنے نقصان کی تلافی کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے، اور اس جانور یا بچے والے کی مٹی پلید کرکے چھوڑتا ہے، اسے احسان جتاجتا کر طعنہ دیتا ہے، کبھی گالی گلوچ کی نوبت آتی ہے تو کبھی ماردھاڑ پر اتر آتے ہیں،دوسرا فریق اگر شریف النفس ہے اور خاندانی عزت نفس کامالک ہے تو اسے مزید گل کھلانے کا خوب موقع ہاتھ آجاتا ہے اور اصرار کے ساتھ طوفان مچاتا ہے۔ واللہ المستعان
    ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہوجاتا ہے اس کا ہر عیب چھپ جاتا ہے ،بقول شاعر
    جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
    ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
    پھرواہ واہی ،تملق پرستی ،چاپلوسی کادور چلتا ہے،وہ معزز ومکرم بن جاتا ہے،اشتہارات میں اس کانام آنے لگتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انہی ابن الوقتی اور مفاد پرست خود غرض لوگوں نے سماج کو اندرسے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ۔
    یہ ایک نکتہ بھی دھیان میں رکھیے کہ آج کل گاؤں گھر میں تحریکی ،اخوانی، تبلیغی ،جماعت اسلامی، سلمانی ،مرزائی، اوردیوبندی فکر کے حاملین علماء کی کثرت ہے،نہ منہج کا پتہ ہے، نہ عقیدہ میں درستی ہے،نہ ٹھوس بنیادی صلاحیت،نہ علم میں اصالت ،نہ فکر میں اصابت ورصانت ،بس شور وہنگامہ، سعودی حکمران کوکوسنا، نقائص وعیوب کو تلاش کرکرکے شاہ سلمان ومحمد بن سلمان کو گالی دینا ان کی فطرت میں رچ بس گئی ہے ، سعودی عرب کی خدمات ،اسعاف ، مآثر ، ومناشط ، کو یکسر بھلاکر اس طرح شور وغوغا کرنا اور اعداء اسلام کے ساتھ ہاتھ ملاکر پرو پیگنڈہ کرنا دعایات واراجیف اور غلط خبروں کی تشہیر کرکے عوام اور جاہلوں کو مملکہ کے خلاف بھڑکانا کون سی عقلمندی ہے ۔
    مختصر یہ کہ معاشرہ بگڑ چکا ہے، خرابیاں برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں، علماء کا قدر گھٹ چکا ہے، مصلحین امت پر طرح طرح کی لن ترانیاں جاری وساری ہیں، داعیانِ ملتِ اسلامیہ کو ستایا وپیسا جارہا ہے، بدگمانی اس قدر بڑھ چکی ہے، حسد اور جلن میں لوگ اس طرح کڑھ رہے ہیں کہ علماء حق کو کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے،ان سے ذہنی چین سکون چھن لیا ہے، اور ان پر قسم قسم کے سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں،تھوڑا سا کھٹ پٹ ہوا مدرسہ اور مسجد الگ کرلیا،پارٹی بندی شروع ، اور ،’’كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ‘‘ کی عملی تصویرہوتی ہے۔
    شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ’’نہ مدرسہ میں علم ہے، نہ محرابِ مسجد میں اخلاص ، اور نہ مے کدہ میں رندان بے ریا، ارباب صدق و صفا ان سب سے الگ ہیں ،اور سب سے پناہ مانگتے ہیں،ان کی راہ دوسری ہے‘‘
    اکھڑ جاہل گاؤں سماج کا منڈل اور سربراہ بن گیا ،تف ہے اتنی گندی وسطحی حرکت پر۔
    میں خون کے آنسو روتا ہوںاور بہت زیادہ تڑپ جاتا ہوں جب مجھے اس طرح کی خبر ملتی ہے کہ ایک عالم دین جو برسہا برس سے دین کی خدمت کررہا ہے، جس نے نہ جانے کتنی قربانیاں دیں ،رمضان کے مہینے میں جب سارے لوگ گھروں میں موج مستیاں اڑا رہے ہوتے ہیں،یہ علماء قوم کے مستقبل کے لیے ،مدارس وجامعات کو تقویت دینے،جمعیت وجماعت کو مضبوط کرنے کے لیے سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں ،ایسے عالم وفاضل کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے،ان کے کردار کو اچھالا جاتا ہے، ان پر الزام لگایا جاتا ہے،ان کے خلاف دانت تیز ہوجاتے ہیں، پنجے زہر آلود اور زبانیں آتش بار ،تہمتوں اور بدتمیزیوں کا طوفان اور وہ ساری باتیں جن سے بغض وحسد کی سینوں میں تپتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو،کہہ بیٹھتے ہیں،منہ میں جھاگ ،ذہن پر جنونی کیفیت کہ چندہ کا پیسہ کھا لیا ،حالانکہ جائز مزدوری اور محنتانہ بھی اسے نہیں ملتا ہے۔
    ایک اہم چیز جس کا ذکر کرنا بہت ہی اہم ہے وہ یہ کہ علماء ودعاۃ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،یعنی یہ دعوت وتدریس ،تعلیم وتربیت ،وتصنیف وتالیف کاکام شہرت ونموداورمشہور ومقبول ہونے کے لیے کرتا ہے،یعنی ریاء ونمود اس کا مقصد ہوتا ہے ۔
    شہرت طلبی کے لیے یہ کام کر رہا ہے اورایک دوسرے کی تحقیر و توہین کے لیے اتنی محنت کر رہا ہے۔
    اس طرح کے گھٹیا الزام لگانایقینا بہت تشویشناک امر ہے۔
    نبی اکرمﷺنے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو جو کچھ فرمایا تھاہمارے لیے تازیانۂ عبرت ہے،فرمایا:
    ’’ألَا شَقَقْتَ عن قلبِهِ حَتّٰي تَعلَمَ من أجلِ ذَلِكَ قالَها أمْ لا؟ مَنْ لكَ بِلا إلهَ إِلّا اللّٰهُ يومَ القيامةِ‘‘
    [صحیح الجامع:رقم:۲۶۵۴]
    ’’تم نے اس کے دل کو کیوں نہیں پھاڑ کر دیکھ لیا تھا تاکہ تمہیں پتہ چل جاتا کہ اس نے اسی وجہ سے کہا یا نہیں ،لا إلہ إلا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن تمہارا کیا ہوگا؟‘‘
    اللہ اکبر ! نبی کریمﷺکی یہ سرزنش،اس عظیم شخصیت کو جنہیں دنیا حِبُّ ابن حِبِّ رسول اللہﷺکے عنوان سے معنون کرتی ہے۔
    اور اس امر پر کہ تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کیا ،تم اس کے لا الہ الا اللہ کا جواب اللہ کے یہاں کیسے دوگے اور کیا دوگے؟
    بعض روایت میں آتا ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے اس عمل سے اتنے پریشان اور نادم تھے کہ فرمایا کرتے تھے:(کاش میں اس دن کے بعد اسلام قبول کیا ہوتا)
    (دیکھیے:ابود داؤد: رقم:۲۶۴۳)
    انگریزی اور عصری پڑھے لکھے ہوئے سے اتنے مرعوب یہ عوام کہ علماء کا قدر ہی نہیں اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں ، حالانکہ علماء کو ہر حالت میں پر برتری حاصل ہے، شاعر کہتا ہے:
    تعلم فليس المرء يولد عالما وليس أخو علم كمن هو جاهل
    وإن كبير القوم لا علم عنده صغير اذا التفت اليه المحافل
    اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’إنما الدنيا لأربعة نفر، عبد رزقه اللٰه مالا وعلما، فهو يتقي فيه ربه ، ويصل فيه رحمه ،ويعلم للٰه فيه حقا ،فهذا بأفضل المنازل ،وعبد رزقه اللٰه علما ولم يرزقه مالا ، فهو صادق النية يقول ،لو ان لي مالا لعلمت بعمل فلان ،فهو نيته ، فأجرهما سواء الحديث‘‘ ۔
    [رواہ الترمذی :۲۳۲۵،وقال ہذا حدیث حسن صحیح]
    ان تمام فضیلتوں اور خصائص کے بعد بھی اگر علماء کی شان میں تنقیص ہورہی ہوتو معاملہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔
    واللہ اندر سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ دردِملت پر رونے والے ان علماء حق کے خلاف جو کارروائیاں ہورہی ہیں آنکھیں اشکبار ہیں، میں ان علماء حق اور اصفائے ملت سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کا تضحیہ ،آپ کی محنت اور قربانی کا صلہ رب تعالیٰ ہی دیں گے ،صبر وشکیب کے ساتھ اس ناہنجار جماعت کو مات دیجیے اور اپنے مشن میں لگے رہیے ، فولادی عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیے ،ہر طرح کی اذیت ناک صورت حال کے لیے تیار رہیے :
    ستون دار پر رکھتے چلو سروں کے چراغ
    جہاں تک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
    واللہ بڑے جذبات میںاور بڑے ہی دکھ کے ساتھ میں نے یہ چند باتیں حوالۂ قرطاس کیا ہے، بہت سارے گوشوں کو نظر انداز کر دیا،بس ہماری نیت اصلاح وسدھار ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے سماج وسوسائٹی کی اصلاح فرمائے،ان میں موجود خرابیوں کو دور فرما دے ۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings